Home / قلم شرارے / عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کا مستقبل۔۔!

عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کا مستقبل۔۔!

 عالمی حکومتی گٹھ بندھن اور کشمیری عوام کامستقبل
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
 اپنے ملک کے حالات، سیاست، افراتفری سمیت دنیا بھر پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک لمحے کیلئے میں اپنے آپ کو پتھر کے دور میں کھویا ہوا محسوس کرتا ہوں، پتھر کے دور سے نکل کر اب ترقی یافتہ دور تک حضرت انسان نے کافی مسافتیں طے کیں، دوران سفر اس کو بڑے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا، کتنی ہی آفتوں ،مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ حضرت انسان جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر سماجی بندھنوں میں بندھا مگر اس سفر میں اس کو صدیاں نہیں بلکہ ہزاروں سال لگے لیکن باوجود ہزاروں سال گزر جانے کے اس انسان نے اپنی وحشی جبلتوں کو خیرآباد نہیں کہا، یہی جبلتیں جب انسان میں گھر کرتی ہیں تو اس کو یہ جنگوں پر مجبور کرتی ہیں، ریاستوں کو بنیاد بنا کر یہی انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے اس جنگ وجدل میں بھی انسان کو سفر کرتے صدیاں بیت گئیں، کہیں یہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں اتارتا ہے تو کہیں ریاست تو کہیں یہ نسلی تعصب کی آگ میں اندھا ہو کر قتل غارت گری میں مصروف ہو جاتا ہے اسکو اس بات کا علم بھی ہے کہ قددرت نے اس کو جہاں پیدا کیا وہ اسطرح کے  رنگ میں رنگ گیا اور ان کے جیسابن گیا،یہ انسان  اگر مشرق کی بجائے مغرب میں پیدا ہوتا تو وہ آج مغربی تہذیب وتمدن کا حامی ہوتا، اسطرح وہ  جب پیدا ہوا تو بے اختیار تھا،اس نے نہ مذہب کا خود چنا کیا اور نہ سر حدوں کا تعین کرکے جنم لیا لیکن چونکہ وہ وہاں پیدا ہوا ان لوگوں میں پیدا ہوا تو اس کو بھی ان جیسا بننا پڑا ،نہ یہ  اس کا فیصلہ تھا اور ہی اسکا اختیار ا، لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجودانسانوں کی جانب سے جو جنگیں ایک دسورے پر مسلط کی گئیں اور اس کے نتیجے میں اس کو جن تلخ تجربات سے گزرنا پڑا اسکی تاریخ گواہ ہے، لیکن بعدازاں اس نے لڑائی کشت وخون کے بجائے ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جسکے تحت  وہ  آئیندہ آنے والی نسلوں کیلئے ان کو بہتر ماحول دینے اور آپس میں موجود اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے مسائل کو گفت وشنید کے ذریعہ حل کرسکے، اس ضمن میں  پوری دنیا میں امن کی تلاش کیلئے کوششیں کیں اور اس دنیا کو کسی حد تک مسائل اور اختلافات سے آزاد کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششوں کے بعد ، اقوام عالم کے ادارے وجود میں آئے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی مسائل کے حل کیلئے پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا ، جسکے بعد نت نئی چیزیں وجود میں آئیں، انتہائی خطرناک اسلحہ کے بجائے اس طرح کی ایجادات کی گئیں جو بنی نوع انسان کیکئے مستقبل میں کام آئیں اور انسانوں کو زندگی میں در پیش مسائل کے حل کا سامان مہیا کریں، انسانوںکے سکھ چین سلامتی کو ان کے ذریعے یقینی بنانے کا عزم کیا گیا، ان کوششوں اور کاوشوں نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے مواقع فراہم کیئے اور  دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر تی چلی گئی، آج دنیا میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کا سفر انتہائی آسان ہے، جبکہ دنیا بھر میں اگر کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے،تو اس دور کے انسانوںکو یہ آزادی ہے کہ وہ اس واقعہ کو کوسوں دور رہہ کر بھی  فوری طور جان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، یہ ترقی کا عروج ہے اور اس ضمن میںمزید جدت پسند منصوبوں پر کام جاری ہے، اس طرح شاید آنے والے نسلوں کے انسان مستقبل میں شاید کوئی ایسا انوکھا،تجربہ کر ڈالیں کہ جس سے شاید ہماری  نسل کے لوگوں کو حیرانی بھی ہو، مگر ہم ہیں کہ اب تک اس پتھر کے دور سے نکلنے کیلئے تیار نہیں،امن آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا خواب بنا ہوا ہے، اس وقت پاکستان میں نہ صرف اندرونی حالات دہشت گردی کا شکار ہیں، بلکہ پڑوسی ملک کی جانب سے بھی عالمی اور بین الاقوامی قوانین کی جو دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں وہ قابل تشویش ہیں ، پڑوسی ملک میں نہ صرف وہاں رہنے والی اقلیتوں کیلئے جینا حرام کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے سرحد کے اس پار بھی عوام کو کسی نہ کسی طریقے تنگ کیا جائے، حالیہ کشمیر کے حالات سے آپ انداز لگا سکتے ہیں کہ ان کی سیاست کا رخ کیا انداز اختیار کئے ہوئے ہے وہ بلا جواز انسانی آبادیوں کو نشانہ بناتے ہیں، انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو کبھی ان پر بم برسائے جاتے ہیں، کبھی کلسٹر بم سے تو کبھی آنکھوں کو اندھا کرنے والی پلٹ گنوں کا استعمال کرکے ان کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن لگتا ایسے ہے کہ پوری دنیا کو ان کا چہرہ دکھانے کا کوئی فائدہ اب تک حاصل نہیں ہوا، لگتا یہ ہے کہ مودی خطہ کی  عوام کو دوبارہ پتھر والے دور میں لے جانا چاہتا ہے،  جنگی جبلت اب تک ان کے خمیر میں موجود  ہے، مودی جو کچھ کررہا ہے اسکو ایسی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ  اسکے اس عمل سے عام انسانوں کی زندگیاں اجل کا شکار بن رہی ہیں، پوری دنیا میں بھارت کیلئے مسئلہ کشمیر پر ایک منفی تاثر ابھر رہا ہے لیکن وہ  اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، انسانوں کو تکالیف پہنچانے انکے حقوق پامال کرنے کی پالیسیوں  سے ان کو کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ دوسری صورت میں ان کا سکھ اور امن بھی کسی طور سلامت نہیں رہہ سکے گا،اگر ہم بھارت کی سیسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو  مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کی آزادی کے بعد جب وہ وزیر تعلیم تھے تو کہا تھا کہ ہمیں  اپنی نسلوں کو غلامی سے نفرت سکھانا ہو گی اور غلام بنانے والی عالمی قوتوں کیخلاف بدلہ لینے کی ریت قوم کو سکھانی ہو گی، یہی سوچ جواہر لال نہرو کی تھی کہ کہیں عالمی سامراج ایک بار پھر برصغیر واپس آ کر انکے ملک پر قبضہ نہ کرلے، اس لئے تعلیمی اداروں میں غلامی سے نفرت کا سبق بچوں کو پڑھایا گیا، اس طرح کی تعلیم کا اثر ہندوستان میں نظر بھی آیا،لیکن پاکستان اس میں ہمیشہ پیچھے رہا،1997 کی تاریخ گواہ ہے جب اکتوبر کے مہینے میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ٹیلر پاکستان اور ہندوستان کے دورہ پر گئیں تو پاکستان کی عوام نے ان کا والہانہ استقبال ایک محسنہ کے بطور کیا،جبکہ ان کے دورہ ہندوستان کے موقع پر وہاں کے عوام نے بھوک ہڑتالیں کیں کہ ملکہ ہمارے ملک میں نہ آئے اور اگر آئے تو جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی جانب سے بھارتیوں کے قتل عام پر ہندوستان کی عوام سے معافی طلب کرے۔!بہر کیف بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کرنے کا جو اقدام کیا گیا ہے اس سے پاکستان کو اس نے ایک بند گلی میں لا کھڑاکیا ہے، سیاسی شطرنج کی بساط پر کھیل میں جو چال مودی نے چلی ہے اس کے بعد پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی چال چل سکے، نریندر مودی کے ہمراہ اس کھیل میں اس کے پارٹنر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو بھی ہیں، جنہوں نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اندرونی سیاسی کشیدہ حالات سے فوری فائدہ اٹھانے کا مشورہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی کرا لیا ہے،سیاسی کھیل پر نظر رکھنے والے افراد اس کھیل کو باآسانی سمجھ چکے ہیں، یہی کھیل اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کھیلا جو کھیل اب مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، بھارت کی جانب سے آرٹیکل370کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت کے آئین کے تحت بھارت میں ضم ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کی جانب موجود جموں وکشمیر اب تک متنازعہ حیثیت میںموجود ہے، اس طرح اس آرٹیکل کے نفاذ کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں جائیدادوں کی قیمتیں تقریبا دوگنی ہو چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے، تاہم آئندہ پانچ سالوں میں ہندو انتہا پسند وہاں پر سرمایہ کاری کے ذریعہ کشمیریوں سے ان کی جائیدادیں اور زمین خرید کر عملی طور پر اس پر قابض ہو جائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیربھی کہیں فلسطین کا منظر پیش نہ کرنے لگ جائے،  یہی وہ خواب ہے جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے مودی نے آرٹیکل370کا آئین سے خاتمہ کیا ہے،اب دیگر عام ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہوچکا ہے کہ وہ وہاں جائیدادوں کی خریدو فروخت کر سکیں گے کیونکہ انڈیا کے آئین کی رو سے اب اس ترممیم کے بعد یہ  علاقہ اب متازعہ نہیں رہا، اس ضمن میںموجودہ پاکستان کے جو حکمران ہیں ان کو کمال چالاکی سے پھنسایا گیا ہے یا پھر خود ، پاکستان کی عسکری قیادت ایک بار پھر بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو گئی ہے، کیونکہ ملک چلانے کیلئے ان کو فنڈز درکار ہیں، لولی لنگڑی جمہوریت اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے آنے کے بعد پاکستان سفارتی طور پر بین الاقوانی دنیامیں تنہا رہ گیا ہے، کسی بھی ایک ملک نے انڈیا کے اس اقدام کی مذمت نہیں کی، اس طرح پاکستان کی خاموشی بھی دیگر ممالک کیلئے اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اندرون خانہ وہ انڈیا کے اس اقدام پر شایدنیم رضا مندی اختیار کئے ہوئے تھے ،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جو رد عمل دیکھنے میں آیا وہ حیران کن تھا سب اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے تھے، صرف ایک خاتون جو کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز تھیں، اس اقدام کے خلاف جلسہ جلوسوں کے ذریعے ببانگ دھل مخالف کررہی تھیں لیکن اس کو بھی حکمرانوں نے پھر سے پابند سلاسل کردیا  اس طرح حکومت نے یہ گرفتاری کر کے اس بات پر مہر ثابت کر دی کہ وہ بھارت کے اس اقدام پر رضا مند ہیں، اور عوامی طور پر کوئی  مزاحمت نہیں چاہتیاس طرح دیگر مذہبی جماعتیں جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول پر ہمیشہ کام کرتی رہی ہیں، وہ بھی اس نوقع پر  خاموش تماشائی نظر آئیں، جماعت اسلامی جو کہ1998 میں جب واجپائی لاہور آیا تھا تو انہوںنے مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا ، نواز شریف کے ہمراہ اس نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور متفقہ حل پر رضا مندی ظاہر کی، لیکن اس وقت جماعت اسلامی نے لاہور کو میدان جنگ میں تبدیل کئے رکھا،غداری کے فتوی جاری کئے گئے، اب جبکہ2019 میں بھارت نے کشمیر پر آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کر کے مکمل قبضہ کر لیا ہے تو وہی جماعت اسلامی مسلسل مراقبہ میںڈوبی ہوئی ہے، یہی جماعت اسلامی کئی دہائیوں سے کشمیر کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرتی رہی، ہماری فوج نے تین جنگیں اسہی کشمیر کے نام پر لڑیں، پارلیمنٹ میں وہ زرداری جو کبھی کہتا تھا کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وہ خود پارلیمنٹ میں  بجتا ہوا نظر آیا،اس کے منہ میں تعصب کی بات ڈالی گئی تا کہ عوام کی کشمیر سے توجہ ہٹائی جا سکے، پاکستان کی کمزور حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعظم عمران نے جب پائلٹ اور جہاز گرانے کا واقعہ ہوا تو وہ خود بھارت کے سامنے لیٹ گئے یکطرفہ طور باڈر کھول دیا گیا، نہ صرف پائلٹ کو چھوڑاگیا بلکہ فضائی حدود انڈیا پر نچھاور کرتے ہوئے سینکڑوں مس کالیں مار دی گئیں، اس طرح اب بھی  فضائی حدود بند نہیں کی گئی، جس سے انڈیا کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا، کیوکہ فضائی حدود بند ہو جانے کے باعث ان کو جو روٹ اختیار کرنا پڑتا اس سے ان کو معاشی طور پر کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ، اس طرح اگر ہم الیکشن سے پہلے کا جائزہ لیں تو بھارتی الیکشن سے کچھ ماہ قبل مودی بری طرح الیکشن ہار رہا تھا ، پھر پلوامہ ہوجاتا ہے اور کچھ جہادی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، اس طرح مودی حملہ کرتا ہے اور پاکستان کی معافیاں اس کو الیکشن جتوا دیتی ہیں، اس طرح مودی نے اپنے انتخابات کے دوران کہا کہ دوبارہ منتخب ہوا تو کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا دوں گا، جبکہ عمران خان نے بیان دیا کہ کشمیر کا مسئلہ مودی کی جیت میں پنہاں ہے یہ بیانات سیاسی شعور رکھنے والے افراد کو اسوقت ہی سمجھ آ گئے تھے کہ آئندہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے ،ماضی میں بھی جرنیل جب بھی طاقتور ہوئے ملک کو انہوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بھارت کو تین دریا انہوں نے ہی دشمن کو تشطری میں سجا کر دئیے،مشرقی پاکستان کا کام انہوں نے ہی تمام کیا اور نام بھٹو کا داغ دیا گیا جبکہ کارگل کا نام نواز شریف سے موسوم کراکے قوم کو رٹوایا گیا کہ یہی سچ ہے  اور یہیی حقیقت ہے ، سرکریک، سیاچن، کارگل، سب ان کے کارنامے تھے، اب جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے، آج کٹھ پتلی وزیر اعظم ان کے کہنے پر وہی کچھ کررہا ہے جو وہ چاہتے ہیں مگر آئندہ کی تاریخ میں کشمیر کے اس سودے میں نام عمران خان کا ہی آئے گا، حالانکہ کشمیر کا سودا ان جرنیلوں نے کیا ہے وہ جوکہ ایکسٹینشن اور مسلسل اپنی عیاشیاں چاہتے ہیں، اس پر مجھے چند اشعار یاد آرہے ہیں کہسرد مہر لوگوں سیان کی سرد مہری کاہم گلہ نہیں کرتے تیر جو زباں کے ہیںگر کسی کو لگ جائیںدرد سا کیوں ہوتا ہے؟زخم ان کی باتوں کیکیوں سلا نہیں کرتے پتھروں کی دنیا میںلوگ بھی ہیں پتھر کیلاکھ زلزلے آئیںوہ ہلا نہیں کرتیکشمیر کیا پوری امت مسلمہ اس وقت واقعی زلزلے کی کیفیت میں ہے، کشمیری اس وقت آندھیوں میں گھرے شجر کی ٹہنیوں پر اپنا گھونسلہ تلاش کررہے ہیںِ ان کی آنکھیں گلاب بن چکی ہیں، اسٹیبلشمنٹ لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے، مظالم اور استحصال اور دکھ بھری زندگی سے حکومت کی خود غرضانہ چالوں سے سرحد کے اس پار رہنے والے کشمیری  ہی نہیں بلکہ ، اندرون ملک بسنے والے پاکستانی  بھی پریشان ہیںِ اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی اور توسیعی عزائم کو فروغ دینے اور ان پر عملدرآمد کرانے کیلئے ہرمعاملات میں دخیل ہے، زمینوں سے جڑی تہذیب خطرے میں ہے، کیونکہ تین دریاں کے بعد کشمیر کا سودا مستقبل میں  چھوٹے صوبوں کو پانی کے مزید  مسائل سے ہمکنار کرے گا   ، کشمیری کانچ کے خواب دیکھ کر اپنی آنکھیں زخمی کیئے ہوئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور مودی کٹھ بندھن اور سمجھوتہ اس غلامی کی پہلی قسط ہے،وحشی جبلتیں آنکھوں میں لرزتے رقص کرتے کشمیریوں کے آنسوئوں سے بے نیاز ہے، سیاستدانوں کی زبانوں میں اور صحافیوں کے قلم لکنت کا شکار ہو چکے ہیں، میں اس تمام صورتحال کے بعد جو کچھ دیکھ رہا ہوں اور بڑا بھیانک خواب ہے، اللہ کرے یہ خواب جھوٹا ثابت ہو مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیریوں کی آئندہ آنے والے نسلیں اپنے اجداد کے  وادیوں میں لہکتے کھیت اور کھلیانوں سے محروم ہو نگے، گلاب کا پیڑ اور خوشبو تو ہو گی مگر اس پر ان کا حق نہیں ہو گا، آج جس طرح فلسطین کی عوام یہودیوں کی قید میں ہیں، اللہ نہ کرے کشمیری آنے والی نسلیں، اس طرح کے عذاب سے گزریں، مگر زمینی حقائق یہی کچھ بیان کررہے ہیں، اس میں قصور حکمرانوں کا نہیں ہمارا بھی ہے کیونکہ بقول فیضہوتی نہیں جو قومحق بات پہ یکجااس قوم کا حاکم ہی بس ان کی سزا ہیہوسکتا ہے کشمیرمیں اب کچھ بہتری آ جائے، شاید بھارتی سپریم کورٹ کچھ ریلیف کشمیریوں کو دے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف کو جو توسیع دی ہے اس کی قیمت  کشمیریوں کو بھگتنا ہو گی، اس توسیع کی قیمت ہمارے سامنے نظر آ چکی ہے،آئی ایم ایف کے اسرار پر روپے کو تباہ کر دیا گیا ہے، شدید مہنگائی ہے، سی پیک پر کام تاحال معطل ہے ، افغانستان کا تمام گند اور بھی پاکستان کی گود میں آنے والا ہے، کشمیر کا سودا کرتے ہوئیپاکستان میں  میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے، بغیر کسی ثبوت کے لوگ جیلوں میں بند ہیں،  نااہل لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ پہلے جنرل فیض اور باجوہ نے عمران کو وزیر اعظم بنوایا، پھر باجوہ نے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی بنایا پھر عمران اور فیض نے باجوہ کو تین سال توسیع دی،اب باجوہ اور عمران مل کر جنرل فیض کو آرمی چیف بنائینگے جو عمران کو دوبارہ الیکشن جتوائے گا، دس سال کا پلان ہے مگر یادرکھیں اسکا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ہم لوگ تعصب وہ چاہے نسلی ہو کہ علاقائی مذہبی ہوکہ نسلی ہم سب  اس کا شکار ہو چکے ہیں، حرام خوری ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے، جو کام پرانے زمانہ کا انسان حیوانی جبلتوں کے ذریعے لیتا تھا، اس میں اب تبدیلی یہ آ گئی ہے کہ وہ تمام کام اب بھی کررہا ہے مگر وہ یہ کام کرنے کیلئے اب اپنی عقل کااستعمال کرتا ہے، ہم آج بھی استحصالی قوتوں کے غلام ہیں، قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور ہمارا سفر کوہلو کے اس بیل کاسفر ہے،جو پورا دن سفر کرتا ہے مگر اسکا راستہ کبھی طے نہیں ہو پاتا کیونکہ ہماری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، اس سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں آنکھوں پر بندھی پٹیوں کو ہٹانا ہو گا، اپنی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے شعور اپنے آپ اور قوم میں پیدا کرنا ہوگا،  اور یہ سب کچھ  تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گااور یہی تعلیم ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی کو کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی، پاکستان کو واقعی اس طرح کی جو ڈھیٹ قیاددت ملی ہے اس کو عالمی دنیابھی جانتی ہے انکو پتہ ہے کہ وہ ہر بات مان جائیں گے اور انکاکام چلتا رہے گا دو روٹی ان کو ملتی رہے گی اور غلامی جاری رہے گی۔پاکستان کے وجود کو لگی یہ خون آشام جونکیں جو کہ اس کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے میں لگی ہوئی ہیں،
بقول ابن انشائ
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں،فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں، افسانے ہوں
بہرکیف اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ یہ یقین رکھیں کے انشاللہ ان سب ظالمون کا حساب ہو گا۔ ان وردی والے غنڈوں سے بھی جوکہ اس کٹھ پتلی کو لائے ہیں ۔ اس کٹھ پتلی سے اور اپنا قلم اور حرف بیچنے والے صحافیوں سے بھی جنھوں نے دن رات جھوٹ بول کے عوام کو گمراہ کیا۔سزا جزا سب یہیں پہ ہو گی
انتظار کیجئے۔

Check Also

‎کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر

    کولہو کا بیل بنی قوم اور منزل صرف دائروں کا سفر تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دلبرداشتہ ہو کر چند ایک ماہ سے اس پر اظہار خیال کرنابھی چھوڑ دیا تھا، مگر شاید اپنی اس مٹی سے محبت واپس پھر وہیں کھینچ لانے کومجبور کردیتی ہے کہ اپنے حصے کا حق ادا کیا  جائے،ہماری قوم اور ملک گزشتہ تہتر سالوں سے دائروں کےسفر میں ہے،جس کا کوئی اختتام نہیں ہے ،یہ سفر کولہو میں بندھے ہوئے بیل کی مانند ہے، جسکی کوئی منزل نہیں ہے، جس طرح کولہو کا بیل آشنائے راز سے واقف نہیں ہوتا، اور دن رات چلتاچلا جا تا ہے، اس طرح ہماری قوم کو بھی دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے، پاکستان کیآرمی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ سات دہائیوں سے ہر کسی کو کٹھ پتلی بنائے چلی آرہی ہے ، اور انکواسی دائرہ کے سفر میں چلنے پر مجبور کرتی رہی  ہے، اب جبکہ ملک کا تمام میڈیا حکومتی کنٹرولمیں ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ (جیو اور جنگ) کے مالک میر شکیل الرحمن انکی حراست میں ہیں انہوں نے  میڈیاپر پابندی کے ذریعہ کولہو کے اس بیل کی آنکھیں بھی مکملطور بند کردی ہیں ،اس طرح اب اس قوم(بیل) کو جہاں چاہے گھمائو یہ قوم یہی سمجھے گی کہ وہآگے کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن دراصل ہماری منزل ہم سے کوسوں دور ہے، گزشتہ تہتر سالوں سےپاکستان کی تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہی دہراتی چلی آرہی ہے، یہ ملک جہاں تھا وہیں پر نہیں بلکہوہ مزید پیچھے کی طرف چلا گیا ہے، اگر ہم یحییٰ خان کے مارشل لاء کو بھی گنتی میں گنیں تواس ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں جو کہ اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلفرہے ہیں، اس دوران کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے جہاد کرنا ہے اسطرح پھر کہا گیا کہ پرائے معاملات میں ٹانگ اڑانا دہشت گردی ہے، کبھی ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیابھر میں بسنے والے مسلمان تمہارے بھائیوں کی طرح ہیں، کبھی تیس لاکھ افغان مہاجرین کےبوجھ تلے قوم کو دبا دیا جاتا ہے، کبھی اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کرا کے امریکی ڈالر خطیرتعداد میں وصول کیئے جاتے ہیں، کبھی تمام مسلمانیت دل سے نکال کر کئی مسلمانوں کو سارےمسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیروں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹوں کو ویزے جاری کر کے انہیں اپنے ہی ملک میں غدار بھرتی کرنے کےکام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ کبھی اپنے ہی ملک میں دھرنے دلوا کر ملک کی معیشت اورسیاسی استحکام کو دائو پر لگایا جاتا ہے، کبھی جمہوری حکومتوں کو ناک میں نکیل ڈالنے کیلئےان کی کان مروڑی کی جاتی ہے، کبھی ایدھی جیسے شخص کوبھی خریدنے کی کوشش کی جاتیہے، تو کبھی اس کے جنازہ کی آڑ میں اپنا نام بلند کیا جاتا ہے، جب کبھی بھی قوم مشکل میں ہوتو سارا ملبہ سیاسی حکومت پر گرا کر متوازی حکومت کھڑی کرتے ہوئے اپنے نغمہ بجا بجا کر بتایاجاتا ہے کہ یہی ایک ادارہ ہے جو کہ محبت وطن ہے،باقی سب غدار ہیں، یہی آپ سے سچے ہیں،کبھی اپنے ہی ان لیڈروں کو قتل کرا دیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئےسر توڑ کوششیں کی ہوتی ہیں، کبھی غریب صوبوں سندھ اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کےان عوام کو جو کہ اپنے لئے حق طلب کرتے ہیں اور اپنے حصہ کی روٹی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیںتو ان کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے، ان کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی جاتی ہیں، کبھی کراچیمیں اردو بولنے والے کو بڑا محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ غدارقوم ہیں اورتو اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح تک کوبھی نہیں بخشا ، اس کوبھی ایوب خان کے مقابلہ میں مدقابل آنے پر ”انڈین ایجنٹ”قراردے دیا گیا، ججوں کی تحریک میںپوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوئی میڈیا نے اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ججز بحالہوئے مگر مجال ہے کہ کوئی جنرل مشرف کو غدار تک قرار دے دے، وہ پاکستان آیا مگر اس کوباآسانی فرار کرا دیا گیا، جمہوری حکومت بھی آئی تو اس کو گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا،نواز شریف دور میں ججوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں نہ صرف ججوں کی بلکہ ججوں کےاہل خانہ کو ٹریپ کر کے ان کی غیر اخلاقی وڈیوز بنائی گئیں، اس طرح ایماندار ججوں کو فیملیکے ذریعہ بلیک میل کیا گیا، دھرنے والوں میں کھلم کھلا رقوم تقسیم کی گئیں اور اس سلسلے میںوہ ایماندار جج قاضی فائز عیسیٰ نے آرمی انٹیلی جنس کی جانب سے رقوم کی تقسیم سے متعلقتاریخی فیصلہ دیا اور کوئٹہ سانحہ  کی تحقیقات پر دبنگ ریمارکس اور فیصلے دئیے، اس کو بھیمیڈیا ٹرائل کے ذریعے بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، اسکو عہدے سے ہٹایا گیا اس سےقبل ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی آئی ایس آئی پر تنقید کرنے کیپاداش میں ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا گیا، اس جج نے پاکستان میں  جبریگمشدگیوں کے بارے میں اپنی عدالت میں کہا تھا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی انطاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیداکررکھی ہیں” جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر بھی شدید تنقید کی تھی جس کے بعد انکوخرید کیئے گئے ججوں کے ذریعے فارغ  کرادیا گیا ، ملک میں میڈیا کے ذریعے عوام کو کنٹرولکرنے کیلئے نت نئے گانے بنانے اور سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے خرچ  کئے گئے مگر ان سے یہمعلوم نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم فوج نے کہاں اور کیو ں کر خرچ کی؟ دائروں کے اس سفر میں گزشتہ ستر سالوں میں کبھی ہمیں کمشنری نظام ،تو کبھی ضلعی نظامکبھی پھر وہی کمشنری سسٹم اور پھر ضلعی بلدیاتی نظام الغرض وہی دائروں کا سفر جاری اورساری رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری قوم کو یکجا کر نے کے بجائے ہمیں گروہوں ،نسلوں اورقبیلوں میں تقسیم کیا ،قوم کو آپس میں تقسیم کر کے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے، انہوں نے قوم کومختلف دائروں میں تقسیم کر کے پھر انکو ایک دائرے میں قیدکیا ، اسطرح کسی کو کسی کےدائرے میں جھانکنے کی اجازت بھی نہیں، سندھی، مہاجر، پنجابی، پٹھان کا دائرہ ،اردو ،سندھی کادائرہ، بلوچی اور پنجابی دائرہ، سرائیکی اور پنجابی کا دائرہ، شیعہ سنی، وہابی اور بریلویدائرہ، سیکولر اور مذہبی دائرہ ،یہ پوری قوم ان دائروں میں رہتے ہوئے اب تہتر سالوں بعد اپنے آپکو انہی دائروں کا قیدی سمجھنے لگ چکی ہے ، میڈیا جو اس بٹی ہوئی قوم کو شعور کی منزل پرلے جا کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ اپنے دائروں سے باہر نکلو اور اگر نکل نہیں سکتے تو ایکدوسرے کیلئے کم از کم احترام  ہی پیدا کرلو مگر جو بھی ایسی کوشش کرے وہ یہاں غدار قرار پاتاہے،دائروں کے اس سفر کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل، ہاں جو اس دائروں سے باہر اندائروں کو چلا رہے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ ان کی منزل اور کام یہی ہے کہ وہ قوم کو انہی میںمصروف رکھیں،اسی میں ان کی نجات ہے، اس طرح ملک میں جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ چارمارشل لاء لگ چکے ہیں، انتخابات بھی ہوئے ،مختلف سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے زور آزمائیبھی کی مگر دائروں کے اس سفر میں رہتے ہوئے پاکستان کے نظام میں ذرہ برابر بھی بہتری نظرنہیں آئی، آپ گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہمارا سیاسی نظام، حکمرانی کیصلاحیتیں، سماجی اور اخلاقی اقدار تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو کر پستی کی طرف گامزن ہیں،اس طرح ماضی میں اپنی کارکردگی پر فخر کرنے والے قومی ادارے بھی ہماری اس تہتر سالہتاریخ میں بد ترین توڑ پھوڑ اور تنزلی کا شکار ہوئے ، جس میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز اس کیواضع مثالیں ہیں، مگر یہ تو ہمارے ہی تخلیق کردہ ادارے تھے، مگر وہ ادارے جو کہ انگریز ہمیں دےکر گئے تھے، وہ بھی تو ہم سنبھال نہیں سکے، پوسٹ آفس، ریلوے، تعلیم کا شعبہ، ضلعیانتظامیہ، بلدیاتی ادارے اور قومی خدمات کے کئی ادارے اس وقت اپنی بربادی کی مثال بنے ہوئےہیں، یہ سب ادارے انگریز ہم کو انتہائی بہتر حالت میں دے کر گئے تھے، دائروں کے اس سفر نےتنزلی کی جو داستان رقم کی ہے وہ انتہائی دل دکھانے والی داستان ہے اور عبرتناک بھی ہے ، مگرہم نے اب تک اس سے عبرت حاصل نہیں کی کوئی سبق نہیں سا۔  تاریخ کے مشاہدات اور مطالعہسے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منظم جمہوری ممالک میں سیاسی قیادتوں نے سول سروسز، قوانین کوباقاعدہ بنایا لہٰذا اس ڈھانچہ سے باہر جو کوئی بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا تو اس کو دیگراداروں کے ذمہ دار روکنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کراتے اور قانون کی بالادستی وائم کرنے کیلئےوہ ان قوانین کے ذریعے عملی جامعہ پہنایا جاتا، اس طرح ان پختہ بالغ جمہوری معاشروں میںقانون کی حکمرانی زندگی کا معمول اور رواج بن گئی، اس استحکام کی بنیادی وجہ یا اس کا رازسول سروس کی استقامت میں پنہاں ہوتا ہے، اس لئے ان ممالک میں سول سروسز کو بہت زیادہآئینی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ،اس طرح قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی کارکردگی کے راستےمیں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بلا خوف وخطر کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلاتےہیں، اس طرح کا تحفظ گزشتہ دنوں ہمیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں بھی نظر آیا، جہاں پرہیوسٹن کے پولیس چیف نے اپنے ملک کے صدر کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا کہ صدر صاحب اگرآپ عقل ودانش کی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے منہ کو ہی بند رکھیں”پولیس چیف نے یہجملہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد صدر ٹرمپ کی جانب سے دئیےگئے اس بیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پولیس عوام کی حفاظت نہیں کر پا رہی ہے تو وہ اس کےلئے ملٹری فورسز کو پولیس کی جگہ تعینات کر سکتے ہیں، اس بیان پر اگر صدر ٹرمپ عملدرآمدکرتے تو واقعی معاملہ مزید بگاڑ کی طرف جاتا ، اس لئے پولیس چیف نے اپنے صدر کی جانب سےاس نظام کو خراب کہنے پر شٹ اپ بھی کہااور ان کو دوسرے لفظوں میں احمق بھی کہہ ڈالا اورمنہ بند کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ان کا یہ بیان امریکہ بھر کے میڈیا میں کئی دنوں تک گردشکرتا رہا ، امریکہ ہمارے آبائی ملک پاکستان کی طرح 52 ریاستوں کا مجموعہ ہے ، اس طرحپاکستان میں بھی صوبے وفاق کو قائم رکھنے کی علامتیں ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ سندھبلوچستان، خیبر پختونخواہ یا پنجاب کے کسی بڑے شہر کا پولیس چیف اپنے ہی وزیر اعظم کیجانب سے اپنے فرائض میں مداخلت پر اس کو شٹ اپ کہہ دے، لیکن ایسا پاکستان میں ممکن نہیں،ویسے بھی اس طرح حق گوئی کے ساتھ اظہار خیال کردینا صدارتی یا پارلیمانی نظام کا تحفہنہیں ، بلکہ سچ یہی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ اس کا لازمی جُز ہے، امریکہ ہینہیں تمام یورپی ممالک میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں اس طرح قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، مگرآپ پاکستان کو دیکھ لیں جہاں سندھ پولیس کے آئ جی کو رینجر کے سیکٹر کمانڈر نے اغوا کرایااور جبرا ان سے احکامات پر عملدرآمد کرایا ، جمہوریت ہمارے ملک میں بھی ہے لیکن اگر آپ تھانہمیں ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ ملک میں سول لاء ، شرعیہ لاء سمیت کئیقوانین نافذ العمل ہیں، اس طرح نہ تیتر اور نہ بٹیر والی صورتحال ہے، اس جمہوریت کو جو لوگکنٹرول کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ پاکستان کی آرمی اور اسٹیبلشمنٹ ہے، جنہوں نے گزشتہ70سالوںسے جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، وہی اقتدار پر پوری طرح قابض ہیں اور جبکبھی بھی جمہوری حکومتیں جمہور ان کے مفادات پر چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ پھرسے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اس لئے آنے والی تمام جمہوریتوں کو ان کی ہی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے، اس اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص خاندان اور جاگیردار سیاسی پارٹیاں باقاعدہ غلام ہیں، اس طرحان قوتوں نے70سالوں سے جمہوریت کو اپنے دائرہ میں قید کررکھا ہے ،ملک میں امیر امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں جو بھی مافیا ئیں نظر آتی ہیں، سب کیسب اس نظام اور اس اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر سچا جمہوری معاشرہ تشکیل پا جائے توایسی مافیائیں کبھی بھی اس نظام میں پنپ نہیں سکتیں، پاکستان میں سرمایہ داروں کی شوگرملز مافیائیں ہیں وہ جب چاہیں چینی کی قیمت بڑھا دیں، گندم کی مافیا جب چاہیں ملک میں آٹےکی مصنوعی قلت پیدا کر دیں اور قیمتوں کو آسمان تک چڑھا دیں، اس طرح سیمنٹ ،پٹرول،مافیائیں اپنا منہ کھولے بیٹھی ہوئی ہیں، اب کرونا کے بعد پاکستان سے خبریں آ رہی ہیں کہ دوائوںکی انڈسٹری مافیا نے اس بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوائوں کی قیمتیں کئی فیصد بڑھا دی ہیں،جبکہ حکومت نے ان مافیا کو ار دوام دیتے ہوئے دواوں کی قیمتوں کو حال ہی میں بڑھا دیا ہے اسطرح یہ استحصالی قوتیں انتہائی منظم ہیں، صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنیہی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے ، اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور ان کی غلام اور لونڈی قوتوں کی حوسکی قیمت غریب عوام کو ہی دینا پڑتی ہے، ایک طرف سیاسی حکمرانوں کی نااہلی کا سانحہ درپیشہے تو دوسری طرف نااہل، خود غرض، سیاسی قوتوں نے سول سروسز کے ڈھانچہ کو برباد کرکےرکھ دیا ہے، اس بربادی کی وجہ سے سول سروسز کو آئینی تحفظ سے محروم رکھا گیا ،وزیر اعظمذوالفقار علی بھٹونے بڑے بڑے کام کئے مگر جب آئین تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت بھی اس کو شایدجان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ سیاستدان ان سول سروسز کےافسران کو اپنی وفاداری پر لگانا چاہتے تھے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے خادم بن کر کا م کریں تاکہ ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے، یعنی یہ کہ جو کچھ حکمران چاہیں وہ وہیکریں اورسول سروسز رولز ریگولیشن کے نام پر کوئی بھی انکے لیئے رکاوٹ نہ بن سکے، اس طرحملک میں کھلے بندوں قانون شکنی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھنے لگا، سول سروسز کے افسراننے بھی اس بہتی گنگا سے اپنا حصہ وصول کیا، لوٹ مار کے اس کلچر میں اخلاقی قدروں کاجنازہ نکل گیا اور مزید کئی اور مافیائوں نے اس نظام کے تحت نیا جنم لیا اور حکومتی انتظامیکارکردگی کا بیڑاغرق کر دیا گیا، ہمارے سامنے اس وقت یہ منظر موجود ہے، قومی اداروں کیکارکردگی زوال پذیری کا شکار ہے، نیچے سے اوپر تک رشوت ستانی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا،ریلوے پوسٹ آفیس، اسٹیل مل، ضلعی انتظامیہ، پی آئی اے، مقامی حکومتوں کے شعبہ ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس ناکامی کا سارا وزن غریب عوام برداشت کررہے ہیں، وہی اس کی قیمت ادا کررہےہیں،سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ، انتظامی ڈھانچہ اور اخلاقی ڈھانچہ اب اپنے اپنےدائروں میں سفر کررہا ہے، اس لئے حکمران کوئی بھی آئے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، اس طرحعوام کو صرف چہرے کی تبدیلی پر لگایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ بے وقوف بن کر رہ جاتے ہیں ، اسوقت عوام بے بس اور محرومی کے احساس تلے مغلوب دائروں میں یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے،جس طرح پہلے میں نے کہا کہ میڈیا جو کہ عوام کو درست سمت کا تعین کرنے میں بڑا مدد گارتھا،اب اس بیل کی آنکھ پر بھی مکمل اور مضبوط پٹی باندھ دی گئی ہے، میڈیا کو بھی دائروں کےسفر میں ڈال دیا گیا ہے، کسی کو بھی کسی کے دائرے میں جھانکنے کی اجازت نہیں،، مختلفدائروں میں بٹی ہوئی یہ قوم کس طرح تلاش کرے کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہےہمیں اپنی آنکھوں سے اور اپنی عقلوں سے جو پٹی اسٹیبلشمنٹ نے باندھی ہوئی ہے ہم اسکو اتارپھینکیں اور شعور کے ذریعے اصل دشمن کو پہنچانیں اور قوم اور ملک کاہم درست سمت پر تعینکریں ،بصورت دیگر آنے والے وقتوں میں ہم اور ہماری نسلیں اسی دائرے کے سفر میں لگی رہیں گیاور منزل ان سے بھی کوسوں دور ہوگی اسلیئے یہ ایسے سوالات ہیں جنکے جواب آپکو معلوم ہونابہت ضروری ہیں اور یاد رکھیئے جو معاشرہ سوال کرنابھول جاتا ہے۔ وہ جواب کبھی نہیں  ڈھونڈسکتا، اسلیئے جو بھی ایسا سوال کرتا ہے اسکو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *